Monday 12 June 2017

یقین




ایک دن مسجد میں امام صاحب یقین کا درس دے رہے تھے، دوران بیان انہوں نے بتایا کہ اگر بندے کا اللہ عزوجل پر ایمان مضبوط ہو اور وہ کامل یقین کے ساتھ کسی بھی کام میں ہاتھ ڈالے تو وہ کام اس کے لیے مشکل نہ رہے گا۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اگر کوئی اللہ عزوجل پر یقین رکھ کر دریا میں اتر جائے تو پانی بھی اسے رستہ دے دیتا ہے اللہ رکھا بھی ایک کونے میں بیٹھا مولوی صاحب کی باتیں سن رہا تھا، اللہ رکھا ایک ان پڑھ دیہاتی تھا اورمحنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا، اس سادہ لوح دیہاتی کو مولوی صاحب کی باتیں اچھی لگیں اور اس نے ان باتوں پر عمل کرنے کا عہد کر لیا۔

اللہ رکھا کے گاوُں اور شہر کے درمیان میں ایک نہر بہتی تھی، گاوُں سے باہر کافی دور نہر پہ ایک پل بنا ہوا تھا اور گاوُں والوں کو شہر جانے کے لیے اس پل سے گزرنا پڑتا تھا، جس کی وجہ سے ان کا بہت سا وقت ضائع ہو جاتا۔ لیکن اس صبح جب اللہ رکھا مزدوری کے لیے گاوُں سے نکلا تو نہر کے قریب پہنچتے ہی اسے مولوی صاحب کی بات یاد آگئی کہ اگر اللہ پہ یقین رکھتے ہوئے دریا میں اترا جائے تو دریا بھی راستہ چھوڑ دیتا ہے، یہ خیال دل میں آتے ہی اس ںے اللہ کا نام لیا اور نہر میں اتر گیا اور پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ واقعی نہر  کے پانی نے اللہ رکھے کا بال بھی بھیکا نہ کیا۔

اب تو اللہ رکھے کا معمول بن گیا کہ وہ روزانہ نہر پہ جا کر اللہ کا نام لیتا اور نہر میں اتر جاتا اور واپسی پہ بھی ایسا ہی کرتا، اور یوں اس کا بہت سا وقت بچ جاتا،اب اس کا اللہ پر یقین پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو گیا تھا۔

وقت یوں ہی چلتا رہا اور اللہ رکھا پل کی بجائے نہر کے بیچ وبیچ گزرتا اور اللہ کا شکر ادا کرتا۔ لیکن کچھ عرصے  بعد خدا کا کرنا ایسا ہوا کے ایک دن مولوی صاحب کو کسی کام سے شہر جانا پڑا، وہ صبح جب گھر سے نکلے تو ادھر سے اللہ رکھا بھی کام پر جانے کے لیے گھر سے نکلا اور اتفاق سے دونوں ہی ایک ساتھ نہر پر پہنچے، جب مولوی صاحب پل کی طرف مڑے تو اللہ رکھا کہنے لگا کہ جناب کہاں جا رہے ہیں، یہیں سے نہر کے بیچ و بیچ گزر جاتے ہیں تو یہ سن کر مولوی صاحب کہنے لگے اللہ رکھے تو پاگل تو نہیں ہو گیا یہ نہر تہ بہت گہری ہے کیوں مرنے کو جگہ ڈھونڈ رہے ہو۔

یہ سن کر اللہ رکھے نے کہا کہ مولوی صاحب میں تو روزانہ ایسے ہی آتا جاتا ہوں اور یہ کہہ کر اللہ کا نام لیا اور نہر میں قدم رکھ دیا، مولوی صاحب نے یہ منظر دیکھا تو حیران رہ گئے کہ اللہ رکھے کا پاوُں بھیگا تک نہیں، ادھر مولوی صاحب کا معاملہ یہ تھا کہ خود انکا اپنی باتوں پر عمل نہیں تھا اور اللہ پر بھروسا بھی ہماری طرح کمزور تھا، اس لیے جونہی انھوں نے ڈرتے ڈرتے نہر میں قدم رکھا تو وہ سیدھا پانی میں گیا اور مولوی صاحب نے گھبراتے ہوئے جلدی سے پاوُں واپس کھینچ لیا۔

ادھر اللہ رکھا یہ منظر دیکھ رہا تھا جب اس نے دیکھا کہ مولوی صاحب تو ڈوبنے لگے تو وہ بھی ڈر گیا، اب کی بار اس نے بھی ڈرتے ڈرتے نہر میں قدم رکھا تو وہ بھی سیدھا پانی میں گیا کیونکہ اب کی بار اس کا یقین بھی کمزور ہو چکا تھا۔

No comments: