Saturday 12 August 2017

اللہ کی خفیہ تدبیر



منقول ہے کہ شہر بغداد میں ابو عبداللہ اُندلسی نامی ایک بزرگ تھے جو تمام اہل عراق کے شیخ تھے۔ انہیں تاجدار رسالت صلّ اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی 30 ہزار  احادیث مبارکہ حفظ تھیں اور وہ تمام روایتوں سے قراء ت کرنا جانتے تھے۔  ابو عبداللہ اُندلسی ایک مرتبہ اپنے اصحاب کے ساتھ سیروسیاحت کے لئے روانہ ہوئے جن میں حضرت سیّدنا جنید بغدادی اور حضرت سیّدنا ابوبکر شبلی رحمۃاللہ تعالٰی علیھما وغیرہ مشائخ عراق بھی شامل تھے۔ حضرت  سیّدنا ابوبکر شبلی علیہ رحمۃاللہ القوی کا بیان ہے کہ ہم  ابو عبداللہ اُندلسی کی صحبت میں اللہ عزوجل کی عنایت سے سفر کرتے رہے یہاں تک کہ کفّار کے شہروں میں سے ایک شہر میں پہنچے۔ وہاں پہنچ کر ہم نے وضو کے لئے پانی تلاش کیا لیکن نہ مل سکا۔ پانی کی تلاش میں ہم اس شہر میں گھومنے لگے تواس میں ہم نے گرجے دیکھے جن میں گرجا کے خادم، پادری  اور تارک الدنیا نصرانی موجود تھے جو کہ بتوں اور صلیبوں کی عبادت کر رہے تھے، یہ دیکھ کر ہمیں ان لوگوں اور ان کی عقلوں پر تعجب ہوا۔
آخر کار ہم شہر کے کنارے پر موجود ایک کنویں پر پہنچے، اس کنویں پر کئی لڑکیاں موجود تھیں جو پانی نکال رہی تھیں اور ان کے درمیان ایک خوبصورت چہرے والی لڑکی تھی جس کے گلے میں سونے کے ہار تھے اور ان لڑکیوں میں اس سے زیادہ حسن و جمال والی کوئی نہ تھی۔ اس لڑکی کو دیکھ کر شیخ ابو عبداللہ اُندلسی کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو گیااور انھوں نے پوچھا: یہ کس کی بیٹی ہے؟ جواب دیا گیا کہ اس شہر کے بادشاہ کی بیٹی ہے۔ شیخ نے کہا: اس کا باپ اس کا خیال کیوں نہیں رکھتا اور اسے پانی بھرنے کی تکلیف کیوں دیتا ہے؟لوگوں نے بتایا کہ اس کا باپ ایسا اس لئے کرتا ہے تا کہ جب اس کی شادی ہو تو یہ اپنے شوہر کی عزت و خدمت کرے اور بادشاہ کی بیٹی ہونے پر فخر نہ کرے۔
اس کے بعد شیخ ابو عبداللہ اُندلسی سر جُھکا کر وہیں بیٹھ گئے اور تین دن ایسے گزارے کہ نہ تو کچھ کھاتے پیتے تھے اور نہ ہی کسی سے بات چیت کرتے تھے البتہ فرض نماز ادا کرتے تھے۔ تمام مشائخ ان کے سامنے کھڑے تھے اور کسی کو یہ سمجھ نہ پڑتی تھی کہ کیا کیا جائے۔   حضرت سیّدنا ابوبکر شبلی علیہ رحمۃاللہ القوی کا بیان ہے کہ آخر میں نے آگے بڑھ کر عرض کی: یا سیّدی! آپ کہ اصحاب اور مریدین تین دن سے آپ کی خاموشی پر متعجب ہیں جبکہ آپ کسی سے بھی کلام نہیں کر رہے۔  میری بات سن کر شیخ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: اے لوگو! جان لو کہ میں نے کل جو لڑکی دیکھی تھی میں اس کی محبت میں گرفتار ہو چکا ہوں اور اب میں اس شہر سے نہیں جا سکتا۔
 حضرت سیّدنا ابوبکر شبلی علیہ رحمۃاللہ القوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی: یا سیّدی! آپ اہل عراق کے شیخ ہیں، تمام شہروں میں زُہد و تقویٰ کے حوالے سے مشہور ہیں اور آپ کے مریدوں کی تعداد بارہ ہزار ہے۔  آپ کو قرآن پاک کی حُرمت واسطہ ہمیں اور انھیں رُسوا نہ فرمائیں۔ شیخ نے جواب دیا: اے لوگو! اس بات کا فیصلہ ہو چکا ہے اور میں عدم کے سمندر میں گر چکا ہوں،ولایت کا لباس مجھ سے چھین لیا گیا ہے اور ہدایت کے نشانات مجھ سے اٹھا لئے گئے ہیں۔ اس کے بعد شیخ نے بہت گریہ  و زاری کی اور کہا: اے لوگو! واپس چلے جاؤ کیونکہ قضا و قدر نافذ ہو  چکی ہے۔ شیخ کے معاملے پر ہمیں بڑا تعجب ہوا اور ہم اللہ عزوجل سے دعا کی کہ ہمیں اپنی خفیہ تدبیر سے پناہ عطا فرمائے۔ اس کے بعد ہم بھی روئے اور شیخ بھی روئے یہاں تک کہ مٹی تر ہو گئی۔
اب ہم شیخ کو وہیں چھوڑ کر بغداد واپس آئے تو عام لوگ اور شیخ کے مریدین ان کی زیارت کے لئے جمع ہو گئے، جب لوگوں نے شیخ کو نہ دیکھا تو ان کے بارے میں سوال کیا۔ ہم نے لوگوں کے سامنے تمام واقعہ بیان کیا تو ان کے مریدین میں سے کافی لوگ غم و افسوس کے باعث مر گئے جبکہ دیگر لوگ رونے لگے اور گڑگڑا کر اللہ عزوجل سے دعا کرنے لگے کہ شیخ کو ان کے پاس واپس پہنچا دے۔ بغداد میں موجود مدارس، خانقاہیں اور آستانے بند کر دیے گئے اور شیخ کے واقعے سے لوگوں کو بہت زیادہ غم پہنچا۔
 حضرت سیّدنا ابوبکر شبلی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں کہ پورا ایک سال گزرنے کے بعد میں اپنے چند اصحاب کے ہمراہ شیخ کی خبر لینے کے لئے روانہ ہوا اور اس شہر میں پہنچ کر لوگوں سے شیخ کے بارے میں دریافت کیا۔  ہمیں بتایا گیا کہ وہ جنگل میں خنزیر چرا رہے ہیں۔  ہم نے اس کا سبب پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ شیخ نے اس لڑکی کے باپ کو شادی کا پیغام دیا تو اس نے کہا کہ وہ صرف اس کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کرے گا جو اس کے دین(یعنی عیسائیت) پر ہو، چوغہ پہنے، زنار باندھے، گرجا گھر کی صفائی کرے اور خنزیر چرائے۔ شیخ نے یہ سب کچھ کیا اور ابھی جنگل میں خنزیر چرا رہے ہیں۔
 حضرت سیّدنا ابوبکر شبلی علیہ رحمۃاللہ القوی کا بیان ہے کہ یہ سن کر ہمارے دل پھٹنے لگے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔  ہم شیخ کو دیکھنے کے لئے گئے تو وہ خنزیروں کے سامنے کھڑے تھے۔  جب انہوں نے ہمیں دیکھا تو سر جھکا لیا، ان کے سر پر عیسائیوں کی مخصوص ٹوپی تھی سینے پر زنار بندھا ہوا تھا اور وہ اس عصا پر ٹیک لگا کر کھڑے تھے جس کے سہارے وہ محراب میں کھڑے ہوتے تھے۔ ہم نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا ہم نے کہا: اے شیخ وہ کیا تھا اور یہ کیا ہے؟ ان احادیث اور علوم کے بعد یہ غم اور پریشانیاں کیا ہیں؟
شیخ نے کہا: اے میرے بھائیو اور پیارو! میرے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں ہے، میرے آقا نے جس طرح چاہا مجھ میں تصرف فرمایا اور جب چاہا مجھے اپنے دروازے سے دور کر دیا حالانکہ میں اس کے احباب میں شامل تھا۔  اے  اللہ محبت کرنے والو! اس کے روکنے اور دور کرنے سے ڈرتے رہو اور اے اہل محبت و صفا! قطع تعلقی اور بے وفائی سے بچتے رہو۔  اس کے بعد شیخ نے آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہا: اے میرے مالک و مولا!تیرے بارے میں میرا یہ گمان نہیں تھا۔  پھر وہ اللہ عزوجل سے فریاد کرنے اور رونے لگے اور کہا: اے شبلی! دوسروں سے نصیحت حاصل کرو۔
 حضرت سیّدنا ابوبکر شبلی علیہ رحمۃاللہ القوی نے بلند آواز سے ندا فرمائی! اے اللہ! تجھی سے مدد طلب کی جاتی ہے، تیری ہی بارگاہ میں فریاد کی جارتی ہے اور تجھ پر ہی ہمارا بھروسا ہے، اپنے حلم سے اس مصیبت کو ہم سے دور فرما دے کیونکہ ہم ایسی مصیبت میں گرفتار ہیں جسے تیرے علاوہ کوئی دور نہیں کر سکتا۔  جب خنزیروں نے ان کا رونا دھونا اور چیخ و پکار سنی تو وہ ان کے پاس آ کر مٹی پر لوٹنے لگے اور انہوں نے ایک ایسی چیخ ماری جس پہاڑ گونج اٹھے۔  حضرت سیّدنا ابوبکر شبلی علیہ رحمۃاللہ القوی کا بیان ہے کہ اس وقت مجھے ایسا لگا جیسے قیامت قائم ہو چکی ہے، اس کے بعد شیخ زار و قطار رونے لگے۔   حضرت سیّدنا ابوبکر شبلی علیہ رحمۃاللہ القوی نے ان سے فرمایا: کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ بغداد واپس چلیں۔ شیخ نے جواب دیا: بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ دلوں پر حکومت کرنے کے بعد میں نے خنزیر چرائے ہیں۔
میں نے کہا: اے شیخ! آپ قرآن پاک کے حافظ تھے اور اسے سات قرآتوں سے پڑھتے تھے۔ کیا اب بھی آپ کو قرآن پاک کا کچھ حصہ یاد ہے؟ شیخ نے جواب دیا: میں قرآن پاک  کو مکمل بھول چکا ہوں البتہ مجھے دو آیات یاد ہیں۔ میرے پوچھنے پر شیخ نے بتایا: ایک تو یہ آیت:
ترجمہء کنزالایمان:  اور جسے اللہ ذلیل کرے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں بے شک اللہ جو چاہے کرے۔ 
اور دوسری:
ترجمہء کنزالایمان:  اور جو ایمان کے بدلے کفر لے وہ ٹھیک راستہ (سے) بہک گیا۔
میں نے کہا: اے شیخ! آپ کو سرکار نامدار، مدینے کے تاجدا ر   ﷺ  کی 30 ہزار احادیث یاد تھیں، کیا اب بھی ان میں سے کوئی حدیث یاد ہے؟ شیخ نے کہا: صرف ایک حدیث یاد ہے:  یعنی جو اپنا دین تبدیل کرے (یعنی مرتد ہو جائے) اسے قتل کر دو۔
 حضرت سیّدنا ابوبکر شبلی علیہ رحمۃاللہ القوی کا بیان ہے کہ ہم شیخ کو وہیں چھوڑ کر واپس آ گئے اور ہم ان کی حالت پر حیران تھے۔  تین دن تک سفر کرنے کے بعد ہم ایک نہر پر پہنچے تو دیکھا کہ شیخ اس نہر سے غسل کر کے ہمارے سامنے ظاہر کلمۂ شہادت پڑھا اور پھر سے اسلام میں داخل ہو گئے۔ جب ہم نے شیخ کو اس حالت میں دیکھا تو خوشی و مسرت کے باعث ہمیں اپنے اوپر قابو نہ رہا، شیخ نے ہمیں دیکھ کر کہا: اے لوگو! مجھے پاک کپڑے دو۔ ہم نے شیخ کو پاک کپڑے دیئے تو انہیں پہن کر انہوں نے نماز ادا فرمائی اور بیٹھ گئے۔
ہم نے شیخ سے کہا: تمام تعریفیں اللہ عزوجل کے لیئے ہیں جس نے آپ کو ہمارے پاس واپس پہنچا دیا اور ہمیں جمع فرما دیا، آپ پر جو گزری وہ ہمیں بیان فرما دیں۔  شیخ نے کہا: جب تم لوگ میرے پاس سے واپس گئے تو میں نے پرانی محبت کے طفیل اللہ عزوجل سے دعا کی اور عرض گزار ہوا: اے میرے مولا! میں گناہ گار اور خطا کار ہوں، اللہ عزوجل نے اپنے فضل و کرم سے مجھے معاف فرما دیا اور اپنے پردے سے مجھے ڈھانپ دیا۔
ہم نے شیخ سے کہا: ہم اللہ عزوجل کا واسطہ دے کر پوچھتے ہیں، کیا آپ کی اس مصیبت کا کوئی سبب تھا؟ شیخ نے کہا: ہاں، جب ہم اس شہر میں پہنچے تھے اور تم لوگ گرجا گھروں کا دورہ کر رہے تھے تو میں نے اپنے دل میں کہا  تھاکہ میرے مقابلے میں ان لوگوں کا کیا مقام ہے، میں تو مومن اور ُموَحّد ہوں۔  اسی وقت میرے باطن میں یہ بات ڈالی گئی کہ  ”یہ سب کچھ تیری طرف سے نہیں ہے، اگر تم چاہو تو ہم تمہیں اس کی پہچان کروا دیں۔“پھر مجھے محسوس ہوا کہ میرے دل میں سے ایک پرندہ اڑ کر نکل گیا اور  وہ پرندہ ایمان تھا۔
حضرت سیّدنا ابوبکر شبلی علیہ رحمۃاللہ القوی کا بیان ہے کہ شیخ کی واپسی پر ہم بہت زیادہ خوش ہوئے اور جس دن ہم بغداد واپس پہنچے اس دن لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد جمع ہوئی۔  مدارس، خانقاہیں اور آستانے کھول دیے گئے، شیخ سے ملاقات کے لئے خلیفہ بھی حاضر ہوا اور ان کی خدمت میں تحائف پیش کئے، چالیس ہزار افراد علم کی باتیں سننے کے لئے شیخ کے پاس جمع ہوتے اور ایک مدت تک یہی حال رہا۔ اللہ عزوجل نے بھولا ہوا قرآن اور احادیث مبارکہ بھی شیخ کو واپس عنایت فرما دیں اور اس میں مزید اضافہ فرما دیا۔
ایک دن نماز فجر کے بعد ہم شیخ کی خدمت میں حاضر تھے کہ کسی نے خانقاہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے دیکھا تو ایک شخص سیاہ لباس میں لپٹا ہوا کھڑا تھا۔ میں نے پوچھا: تمہیں کس سے ملنا ہے؟ اس نے کہا: اپنے شیخ سے کہو کہ آپ جس رومی لڑکی کو فلاں شہر میں چھوڑ کر آئے تھے وہ آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہوئی ہے۔ میں نے جا کر شیخ کو پیغام دیا تو ان کے چہرے کا رنگ زرد ہو گیا اور وہ بے چین ہو گئے، پھر حکم دیا کہ اسے اندر لایا جائے۔ جب وہ شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو زار و قطار رونے لگی، شیخ نے دریافت فرمایا: کیسے آنا ہوا اور تمہیں یہاں تک کس نے پہنچایا؟
لڑکی نے جواب دیا: یا سیّدی! جب آپ ہمارے شہر سے واپس چلے گئے اور مجھے اس کی خبر ملی تو اس رات مجھے سکون حاصل نہ ہوا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص مجھ سے کہہ رہا ہے: اگر تم مومن بننا چاہتی ہو تو بتوں کی عبادت چھوڑ کر اس شیخ کی پیروی کرو اور اس کے دین میں داخل ہو جاؤ۔  میں نے پوچھا: ان کا دین کیا ہے؟ جواب ملا: دین اسلام۔  میں نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ تو خواب میں آنے والے نے بتایا: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ  اللہ عزوجل کے رسول ہیں۔
میں نے پھر سوال کیا کہ میں شیخ تک کیسے پہنچ سکتی ہوں؟ اس شخص نے کہا: اپنی آنکھیں بند کر لو اور اپنا ہاتھ مجھے پکڑا دو۔ میں نے ایسا ہی کیا، وہ شخص مجھے لے کر تھوڑا سا چلا اور پھر کہا: اپنی آنکھیں کھول دو، میں نے آنکھیں کھولیں تو میں دریائے دجلہ کے کنارے موجود تھی۔  اس شخص نے کہا:فلاں خانقاہ میں جاؤ، شیخ کو میرا سلام پہنچانا اور ان سے کہنا کہ آپ کا بھائی خضر آپ کو سلام کہتا ہے۔
 شیخ نے اس لڑکی کو اپنے پڑوس میں جگہ دی اور فرمایا: یہاں رہ کر عبادت کرو۔ وہ لڑکی اپنے زمانے کی بہت بڑی عبادت گزار تھی،دن کو روزہ رکھتی اور رات کو قیام کرتی یہاں تک کہ اس کا جسم کمزور اور چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا، پھر وہ مرض الموت میں مبتلا ہو کر مرنے کے قریب ہو گئی لیکن شیخ نے اسے نہ دیکھا تھا۔ اس لڑکی نے لوگوں سے کہا: شیخ سے کہو کہ میری موت سے پہلے میرے پاس تشریف لائیں۔ جب شیخ تک یہ پیغام پہنچا تو وہ اس کے پاس تشریف لائے، لڑکی انہیں دیکھ کر رونے لگی تو شیخ نے ارشاد فرمایا: روؤ مت، کل قیامت کے دن جنت میں ہم اکھٹے ہوں گے۔ اس کے بعد اس لڑکی کا انتقال ہو گیا اور اس کی وفات کے تھوڑے ہی دنوں بعد شیخ بھی اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔
حضرت سیّدنا ابوبکر شبلی علیہ رحمۃاللہ القوی کا بیان ہے کہ میں نے شیخ کو خواب میں دیکھا کہ 70 حوروں کے ساتھ ان کا نکاح ہوا ہے اور سب سے پہلے ان کا نکاح اسی لڑکی کے ساتھ ہوا اور وہ دونوں ان حضرات کے ساتھ ہیں جن پر اللہ عزوجل نے فضل کیا یعنی انبیا، صدیق، شہدا اور نیک لوگ، یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔ یہ اللہ عزوجل کا فضل ہے اور اللہ عزوجل کافی ہے جاننے والا۔
(دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃالمدینہ کی شائع کردہ کتاب       "دین  و  دنیا کی انوکھی باتیں (حصّہ اول)" سے ایک اقتباس)

No comments: